Monday, 17 June 2019

Balochistan & Libraries




                                                                                                                                                 

                                                                                                      لائبریری عموماًکتب خانےکے نام سے جانا جاتا ہے ، ہمارے معاشرے میں لائبریر ی کو صرف ایک اسٹور کے مانند سمجھا جاتا تھا جہاں کچھ مخصوص کتب رکھ کے ان کو تھالہ لگا لیا جاتا حالانکہ لائبریری کی اصل حقیقت بلکل اس کے برعکس ہے اگر لائبریری کی تاریخ مطالعہ کی جائے تو آج سے تقریباً 3000سال قبل از مسیح اسیرین قوم  کے آثار ملتے ہیں ۔اُس وقت بھی لوگ  درس و تدریس، علم و عمل ، تحقیق و مطالعہ کی حصول کے لیے کتب خانوں کا رخ کیا کرتے۔ لائبریری کی تاریخ سے آج تک اگر اسے جانچا یا پڑھا جائے تو دن بہ دن ترقی کرتا آرہاہے۔

لائبریری کسی بھی قوم کی ریڈ کی ہڈی کے مانند ہے ، اس بات کی ثبوت اور پختگی کی علامت یہی ہے کہ آج دنیابھر کے اقوام سب سے زیادہ توجہ لائبریریز کے قیام پر لگا رہی ہیں اس کی بہتر مثال ہمسایہ ملک چین کی لے جنہوں نے گذشتہ برس دنیا کی سب سے بڑی اور جدید ترین لائبریری کا اعزاز حاصل کرلیا۔لیکن جہاں دنیا ترقی کی راہ عموار کر رہی ہے وہاں مملکت اسلامیہ پاکستان بھی لائبریریزکے قیام اور لائبریری علوم کی حصول  کے لیےمثبت اقدامات اپنا رہی ہے۔فیڈرل اور صوبائی حکومتیں لائبریریز کے قیام کو اپنے اہم  حکمت عملی میں لارہے ہیں، کیونکہ کتب خانوں سے ہی آشنا ء زندگی ہے۔

پاکستان جہاں ترقی کے بہت سے نام ور پروجیکٹس پر باقاعدگی سے کام ہورہے ہیں جن میں سر فہرست چائینا ،پاکستان اکانومک کوریڈور( سی پیک، گوادرڈیپ سی پروجیکٹ) ، ریکوڈک گولڈ پروجیکٹ اور سیندک کاپر اینڈ گولڈ پروجیکٹ،  میٹرو بسیس ، میٹرو و آئی ویز ، پاور پلانٹس  اور دیگر منصوبے شامل ہیں۔ لیکن جہاں ترقی کی راہ پر گامزن ہونا وہاں بہت سے مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑرہا ہے جیسے بدامنی، غربت، فرقہ واریت، بےروزگاری، صحت اورتعلیمی سہولیات کی عدم موجودگی ۔ لیکن شاید پاکستان کی ترقی وخوشحالی دیگر  صوبوں کے حصے میں چلی گئی ہیں اور بدامنی ، فرقہ واریت ، بےروزگاری اور سب سے بڑھ کر تعلیمی سرگرمیوں میں دشواری اور صحت کے معاملات میں عدم توجہ ہی کیوں بلوچستان کے حصے میں آئے اور اب ابھی تک  یہ تمام معاملات بلوچستان میں ڈھیرے    ڈال کے بیٹھے ہوئے ہیں۔

بلوچستان جوکہ مملکت پاکستان کا ٪43حصہ پر پہلا ہوا سب سے بڑا صوبہ اور قدرتی معدنیات سے مالا مال خطہ، شاید ہی اس کرہ ارض پر دوسری کوئی ایسی پیاری درتی ہو، جس میں دنیا میں پائے جانے والے قدرتی وسائل سے لیس خطہ ہولیکن بلوچستان اللہ پاک کی طرف سے انمول تحفہ ہے جس کی جتنی شکر کی جائے کم ہے ، لیکن ایک عظیم اور دنیا بھر کے معدنیات سے لیس یہ بلوچستان کا خطہ کمسن پورسی ،بدامنی ،غربت، فرقہ واریت ، بےروزگاری،صحت کے عدم سہولیات اور تعلیمی دشواریوں کے ساتھ ساتھ  مزید دیگر سنگین مسائل سے گیرہ گیا ہے۔ جہاں پر سب سے اہم صحت کے سہولیات ، بےروزگاری اور تعلیمی سرگرمیاں ہیں ۔لیکن اس کرہ ارض کا امیر ترین خطہ اتنے مسائل کا شکا ر کیوں ہے۔۔۔۔؟تو جواب بیڈ گورنینس ، عدم توجہ اور حکمرانوں کی نظراندازی میں ملتاہے۔

بلوچستان وہ خطہ ہےجیسے دنیا بھر کے ممالک  ایک  قدرتی معدنیات سے مالا مال خطہ  اور بہت ہی امیر سوچتا، سمجھتا اور پڑھتا آرہا ہے  وہ خطہ جہاں پر دنیا کا سب سے بڑےسونےکے ذخائر ، کاپر ، ماربل ، تامبہ ، لوہااور کوئلہ وغیرہ موجود ہیں ۔ معدنی وسائل کے ہوتے ہوئے دنیا کے عظیم اور منفرد سیاحی مقامات بولان تا ٹھنڈازیارت، گوادر تا شیرانی  بلند پہاڑی سلسلہ ،نوشکی تا سرلٹ ، سونے کی چڑیا کی مانندریکوڈک تا سیندک  اورماشکیل کے ریگستان سے خضدار کے بلند و بالا پہاڑی سلسلہ مولا چوٹوک تک بلوچستان  کے عظیم و خوبصورت مقامات سےبھی نوازاگیا  ہے۔ ان بے شمار نعمتوں سے ماہانہ کئی بلین کمائے جا رہےہیں لیکن بلوچستان کی بد قسمتی یہی ہے کہ ان بلین روپوں سے بلوچستان کو کبھی ٪02یا کبھی ٪04اور کبھی تو  ایک پائی بھی نہیں دیا جاتا ۔ جس کی ساری بندر بانٹ اسلام آباد سے تشکیل دی جاتی ہے اور پھریہاں پر آباد کچھ جاگیر دار ، سردار ، میر یا وڈیرہ ان پر قبضہ کر کے ہضم کر لیتے ہیں  اور یوں یہ عظیم خطہ دن بہ دن غربت کے لپیٹ میں گھیرتا جا رہا ہے جہاں بے روزگاری ، صحت اور تعلیم جیسی زیور سے یہاں کے نوجوانوں کو محروم کیا جارہا ہے ۔ جس کی وجہ سے آج بلوچستان کی شرح خواندگی٪41 تک پہنچ چکاہے۔ اگر پاکستان کا بجٹ دیکھا جائے تو بلوچستان کے لیے ہر شعبہ میں انتہائی کم بجٹ مختص کی گئی ہے ۔اور کچھ عرصہ سے بلو چستان میں تعلیمی ایمر جنسی  کے باوجود حالیہ 2019-20کے بجٹ میں بلوچستان کوصر ف 44ارب روپے کا تعلیمی بجٹ دیا گیا اور نئے پاکستان  میں بھی بلوچستان کو دوسرے صوبوں کے مقابلے میں ایک مرتبہ پھر نظر انداز کیا گیا ۔

اگر بلوچستان میں لائبریریز کا اعداد و شمار لیا جائے تو بدقسمتی سے یہاں اکیڈمیک ، پبلک ، میونسپل ،لوکل لائبریریز کی کل تعداد 50 سے بھی کم دیکھنے کو ملتا ہے ۔ اکیڈمک لائبریریز  میں سر فہرست جامعہ بلوچستان لائبریری ، بیوٹمز لائبریری ہ ، ایس بی کے لائبریری ، لسبیلہ یونیورسٹی لائبریری ، بی یو آئی ٹی خضدار لائبریری ، الحمد یونیورسٹی لائبریری اور کیڈٹ کالج مستونگ لائبریری شامل ہیں ۔ پبلک لائبریریز میں قائداعظم پبلک لائبریری، صوبائی سنڈیمن لائبریری،صوبائی لائبریری اینڈ میوزیم کوئٹہ ، کنٹومنٹ پبلک لائبریری کوئٹہ، مولانا عبدالحق لائبریری تربت، میرگل خان نصیر لائبریری نوشکی، میونسپل کمیونٹی لائبریری نوکنڈی، میونسپل کمیونٹی لائبریری زیارت ، سراوان پبلک لائبریری مستونگ ، لوہڑکاریز سریاب پبلک لائبریری، شاہوانی پبلک لائبریری کیچی بیگ سریاب کوئٹہ، دشت کے بیک ورڈ علاقے  میں میر عبدالرحمان کرد پبلک لائبریری ، میر عبدالعزیز کرد پبلک لائبریری  جو کہ نوجوانوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بنائی گئی لائبریریزشامل ہیں ۔

بلاشبعہ لائبریری ایک ایسی درسگاہ ہے جہاں رنگ ونسل ،قوم و مذہب  پرستی اور فرقہ  پرستی سے بالاتر ہوکر وہاںسب درس وتدریس، علم و دانش کے مقصد کے لیے آتے ہیں۔ جہاں علم کی کرنوں سے دنیا  روشن کیا جاتا ہےوہاں جہالت کے سایے میں پلنے والے تمام تر غلط فہمیاں ، غلط عکاسی اور غلط بیانی سب مٹ جاتی ہے۔لائبریریز کی کمی اور ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے وفاق اورحکومت بلوچستان کو کوئٹہ بلکہ پورےبلوچستان میں اکیڈمیک اور پبلک لائبریریز کا قیام عمل میں لانا چائیے جس سے یہاں کے نوجوان نسل علم کی نور سے آشنا ہوسکے اور قاتل منشیات سے بچ  سکے  اور بلوچستان کے ہر شہر میں تمام تعلیمی ادارے اپنے اکیڈمیک لائبریریز پبلک کے لیے دن رات کھلے تاکہ وہاں کے نوجوان اور علم دوست عوام   درس و تدریس، علم و عمل ، تحقیق و مطالعہ کی حصول کے لیے لائبریریز سے استفادہ حاصل کر سکے۔  

محمد سلیم کردزادہ

پیر،17جون2019