Tuesday, 19 August 2025

بلوچستان میں لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس کا بحران: مسائل، امکانات اور تعلیمی ترقی کی راہیں (محمد سلیم کردزادہ)

بلوچستان، جو رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ اور ٪43 حصہ ہے، شرح خواندگی٪54 بمطابق پاکستان اکنامک سروے24-2023۔ صوبہ تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات کے شعبوں میں شدید پسماندگی کا شکار ہے۔ ان ہی شعبوں میں ایک اہم اور نظر انداز شدہ شعبہ لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس ہے، جو کسی بھی معاشرے میں علمی ترقی، تحقیق اور تعلیمی معیار بلند کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔مگر بدقسمتی سے بلوچستان میں اس شعبے کی حالت نہایت ابتر ہے۔ صوبے کے تعلیمی ادارے جدید لائبریری سہولیات سے محروم ہیں اور ماہر لائبریرینز کی قلت نے تعلیمی ماحول پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔

انفرا اسٹریکچر کے حوالے سے تو بلوچستان میں کافی عمارتیں تعمیر کی گئی لیکن ان میں درس و تدریس ، تحقیق و تشخیص  کا عمل کافی حد تک بہتر نظر آنے والے انچے عمارتوں میں لائبریری اور لائبریرین شپ مکمل طور پر پسماندہ اور غیر اہمیت کا حامل رہا ہے۔ جسے وقتاً فوقتاً ترقی کی راہ چھڑنی تھی لیکن بلوچستان میں لائبریرین شپ اس وقت انتہائی خستہ حالی کا شکار ہے۔ صوبے کے بیشتر تعلیمی اداروں (12یونیورسٹیوں سمیت 3فیڈرل یونیورسٹی کیمپسز ، 130 جنرل ،10ٹیکنیکل  ، 15کیڈٹ وبی آر سی  او رایک فیزیکل ایجوکیشن کالج کے ساتھ 15ہزار سے زائد اسکولز ) میں یا تو لائبریریاں موجود ہی نہیں، یا پھر وہ محض ایک کمرے اور چند پرانی کتابوں تک محدود ہیں۔ تربیت یافتہ لائبریرینز کی شدید کمی نے صورتحال کو مزید ابتر بنا دیا ہے، نتیجتاً کتب خانوں کا انتظام غیر تربیت یافتہ عملے کے ہاتھوں میں ہے جو جدید لائبریری سسٹمز، کیٹلاگنگ، اور ڈیجیٹل ریسورسز کے استعمال سے ناواقف ہیں۔ حکومت اور پالیسی ساز اداروں کی جانب سے لائبریری سیکٹر  کی مسلسل نظراندازی  اور کالجز سیکٹر میں لائبریریز کے لیے کوئی سروس اسٹیکچر نہ ہونے سے ایک غیر اہم شعبے کی صورت دے دی ہے، حالانکہ یہ تعلیمی نظام کا بنیادی ستون ہے۔

اس خستہ حالی کا اثر براہِ راست صوبے کے تعلیمی معیار اور طلبا کی تحقیقی صلاحیتوں پر پڑ رہا ہے۔ دنیا تیزی سے ڈیجیٹل لائبریریوں اور ای لرننگ کی طرف بڑھ رہی ہے، جبکہ بلوچستان کے نوجوان ابھی تک معلومات کے حصول کے پرانے اور محدود ذرائع تک ہی محدود ہیں۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ علمی محرومی صوبے کی آئندہ نسلوں کو عالمی علمی و تحقیقی دوڑ سے مزید پیچھے دھکیل دے گی۔ ضرورت ہے کہ صوبائی حکومت لائبریریوں کو جدید سہولیات سے آراستہ کرے، لائبریرینز کی تربیت کے لیے مستقل ادارے قائم کرے، اور لائبریری کلچر کو تعلیمی اداروں میں بحال کرے۔

شعبہ لائبریری اینڈ انفارمیشن  سائنس

بلوچستان بھر میں صرف جامعہ بلوچستان، کوئٹہ واحد تعلیمی ادارہ ہے جہاں شعبہ لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس کا  باقاعدہ ڈیپارٹمنٹ موجود ہے، وہ بھی محدود وسائل اور پروگرامز کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ دیگر جامعات جیسے بیوٹمز ، جامعہ خواتین سردار بہادر خان ،  جامعہ چاکر رند سبی، جامعہ لورالائی، تربت ،گوادر، اور جامعہ مکران وغیرہ میں اب تک لائبریری سائنس کے شعبے کا آغاز نہیں ہو سکے۔ جس کی وجہ سے ہزاروں طلبا کو یہ مضمون پڑھنے کے مواقع میسر نہیں۔اور نہ ہی کالجز سیکٹر میں شعبہ کا کوئی پروگرام شروع کیا جاسکا۔

شعبہ لائبریری سائنس 1985 میں پہلی بار جامعہ بلوچستان میں 3 سالہ ایسوسی ایٹ ڈگری کے تحت شروع کیا گیا تھاتاہم کچھ سال چلنے کے بعد اس ایسو سی ایٹ ڈگری کو 1996 میں 2سالہ ماسٹر ان لائبریری سائنس  میں تبدیل کردیا گیااور 2006میں جدید تکنیکی امور اور آئی ٹی کے کورسز شعبہ میں ایڈ کیے گیےاور شعبہ کا نام تبدیل کر کے لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس کر دیا گیا۔ 2015میں شعبہ نے ایم فل ڈگری کا بھی اعلان کیا اور 2017 میں 2 سالہ ڈگری کو سیمسٹر سسٹم میں تبدیل کر دیا گیا  ،2018 میں شعبہ نے بیچلر ڈگری (بی ایس) لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس شروع کی سا تھ ساتھ ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان نےتمام جامعات سے  2 سالہ بیچلرز(بی اے۔ بی ایس سی) اور ماسٹر ڈگری (ایم اے ،ایم ایس سی) کو ختم کر کے تمام جامعات سے مزید ڈگری وصول کرنے والے طالبہ و طالبا ت کو تصدیق نہ کرنے کا حکم نامہ جاری کیا۔

حالیہ تنازر میں جامعہ بلوچستان نے فیکلٹی کم یعنی نہ ہونے کے برابر پر ایم فل ڈگری کو فلحال بند کر دی ہے۔ یوں بلوچستان کے واحد جامعہ میں شعبہ لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس میں2018سے بی ایس کے مختلف  سیشنز چل رہے ہیں اور وہ بھی4 فیکلٹی ممبر کے کھندوں پر۔  جن میں ایک نئی ڈاکٹرجو ابھی پی ایچ ڈی مکمل کر کے آئے ہیں چائنا سے 2 ایم فل اور ایک ایم اے ڈگری ہولڈر ہے۔

بلوچستان میں لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس کے مسائل اور مستقبل کی ضرورت

بلوچستان علمی و تحقیقی اعتبار سے ایک پسماندہ صوبہ تصور کیا جاتا ہے، جہاں تعلیم کے کئی شعبے اپنی بقا کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان ہی شعبوں میں لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنسزبھی شامل ہے، جو دنیا بھر میں تعلیمی و تحقیقی ترقی کا لازمی جزو ہے۔ بدقسمتی سے بلوچستان میں یہ شعبہ کئی گمبھیر مسائل کا شکار ہے، جن پر توجہ دینا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

سب سے پہلا اور بنیادی مسئلہ اساتذہ اور ماہرین کی کمی ہے۔ صوبے کی جامعات میں  مستقل پروفیسرز اور تربیت یافتہ فیکلٹی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے کنٹریکٹ یا جز وقتی لیکچررز سے کام لیا جاتا ہے، مگر یہ پالیسی اساتذہ اور طلبہ دونوں کے لیے غیر تسلی بخش ہے۔ تنخواہوں کی عدم ادائیگی یا تاخیر نے اساتذہ کو مزید مایوس کر دیا ہے، اور نتیجتاً یہ شعبہ اپنی بنیادوں میں کمزور ہوتا جا رہا ہے۔

اسی طرح جدید لائبریری انفراسٹرکچر کی عدم دستیابی بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ دنیا ڈیجیٹل لائبریریوں، آن لائن ڈیٹا بیسز اور ای کیٹلاگنگ کی طرف بڑھ رہی ہے، جبکہ بلوچستان کے اکثر کتب خانے آج بھی پرانی فائلوں اور فرسودہ ریکارڈز پر انحصار کرتے ہیں۔ نہ کمپیوٹر لیب، نہ ڈیجیٹل لائبریریز ہیں، نہ انٹرنیٹ کی معیاری سہولت، اور نہ ہی خودکار نظام، جس کی وجہ سے طلبہ عالمی معیار کی معلومات تک رسائی سے محروم ہیں۔

ان حالات کو مزید ابتر بنانے میں حکومت اور جامعات کی عدم توجہی اور ناکافی فنڈنگ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ لائبریریوں کے لیے مخصوص بجٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ دیگر شعبوں کی طرح لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنسز کو کبھی سنجیدہ اہمیت نہیں دی گئی۔ صوبے میں اب تک کوئی مؤثر لائبریری پالیسی یا لائبریری ایکٹ بھی نافذ نہیں کیا گیا، جس کے باعث کتب خانوں کی ترقی کے لیے کوئی واضح سمت طے نہیں ہو سکی ۔

بلوچستان کے کالج سیکٹر میں لائبریری پروفیشنلز کی صورتحال نہایت تشویشناک ہے۔ اب تک ان کے بہتر مستقبل کے لیے کوئی مؤثر بین الصوبائی سروس اسٹرکچر ترتیب نہیں دیا گیا، جس کے باعث اس شعبے کے ماہرین اپنی پیشہ ورانہ ترقی سے محروم ہیں۔ مزید یہ کہ ایس این ای میں شامل لائبریرینز کو نئی پوسٹوں پر ترقی دینے کے بجائے نظر انداز کیا گیا ہے۔ موجودہ المیہ یہ ہے کہ لائبریرینز کے لیے ٹائم اسکیل پروموشن جیسا بنیادی حق بھی بند کر دیا گیا ہے، جس نے ان کے کیریئر کو جمود کا شکار بنا دیا ہے۔ اس صورتحال نے نہ صرف لائبریری پروفیشنلز کے حوصلے پست کیے ہیں بلکہ صوبے کے تعلیمی اداروں میں لائبریری کلچر اور تحقیق کے فروغ کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اگر حکومت فوری اقدامات نہ کرے تو یہ شعبہ مزید زوال کا شکار ہو جائے گا اور طلبہ کو معیاری تعلیمی سہولیات فراہم کرنا مزید مشکل ہو جائے گا۔

مزید برآں، تربیتی مواقع اور ورکشاپس کی کمی نے بھی حالات کو بگاڑ رکھا ہے۔ جو لائبریرینز موجود ہیں وہ جدید مہارتوں اور ٹیکنالوجی سے ناواقف رہتے ہیں۔ اس کمی کی وجہ سے صوبے کے کتب خانے اپنے قارئین کو بہتر سہولتیں فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔ان تمام مسائل کے باوجود، اگر صوبائی حکومت، جامعات ،سیکریٹریز ،ڈائریکٹرز کالجز و اسکولز ایجوکیشن ڈیپارنمنٹس اور سول سوسائٹی سنجیدگی سے قدم اٹھائے تو یہ شعبہ بلوچستان کی تعلیمی و تحقیقی ترقی میں انقلابی کردار ادا کر سکتا ہے۔ مستقل اساتذہ کی تعیناتی، جدید انفراسٹرکچر کی فراہمی، ایک جامع بلوچستان لائبریری ایکٹ کی منظوری، اور باقاعدہ تربیتی پروگرامز اس شعبے کو ازسرِنو زندہ کر سکتے ہیں۔

امکانات اور حل

بلوچستان میں تعلیمی ترقی کے لیے لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس میں سرمایہ کاری وقت کی اہم ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر صوبے کی دیگر جامعات میں اس شعبے کے ڈیپارٹمنٹس قائم کرے اور ڈیجیٹل لائبریریوں کے قیام کو یقینی بنائے تاکہ طلبا اور محققین عالمی سطح کی معلومات تک رسائی حاصل کر سکیں۔ اسی کے ساتھ بین الاقوامی اداروں اور این جی اوز کے تعاون سے تربیتی پروگرامز، ورکشاپس اور سیمینارز کا انعقاد کیا جائے تاکہ لائبریرینز اور طلبا جدید مہارتوں سے ہم آہنگ ہو سکیں۔ اس مقصد کے لیے ایک مربوط بلوچستان لائبریری ڈیولپمنٹ پالیسی تشکیل دینا ناگزیر ہے جس کے تحت تمام سرکاری و نجی ادارے اپنے کتب خانوں کو فعال اور جدید خطوط پر استوار کریں۔ اگر ایسا ممکن ہو جائے تو یہ صرف طلبا کے لیے ہی نہیں بلکہ مجموعی طور پر معاشرتی ترقی کے لیے سنگ میل ثابت ہوگا۔ اس سے نہ صرف تعلیمی معیار میں نمایاں بہتری آئے گی بلکہ طلبا میں تحقیق کا رجحان بڑھے گا، نوجوان ڈیجیٹل دنیا سے ہم آہنگ ہوں گے اور علمی سرگرمیوں کے فروغ سے سماجی ہم آہنگی میں بھی اضافہ ہوگا۔

لائبریرنز کے اس سنگین صورتحال کا تقاضا ہے کہ حکومت اور محکمۂ تعلیم لائبریری پروفیشنلز کی ترقی اور ان کے مستقبل کے تحفظ کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرے۔ سب سے پہلے ایک واضح اور شفاف سروس اسٹرکچر تشکیل دیا جائے تاکہ لائبریرینز کو ترقی کے مساوی مواقع میسر آ سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹائم اسکیل پروموشن کے راستے کو دوبارہ بحال کیا جائے تاکہ اساتذہ کی طرح لائبریرینز بھی اپنی خدمات کے صلے میں پیشہ ورانہ ارتقاء حاصل کر سکیں۔ مزید برآں، ایس این ای میں نئی پوسٹوں کا اجراء اور ان پر تقرری کے ذریعے نوجوان پروفیشنلز کو مواقع فراہم کیے جائیں۔ اگر یہ اقدامات کیے جائیں تو نہ صرف لائبریرینز کے مسائل حل ہوں گے بلکہ تعلیمی اداروں میں کتب خانوں کو فعال بنا کر طلبہ کے لیے تحقیق اور مطالعے کا بہتر ماحول فراہم کیا جا سکے گا ، مزید یہ کہ نہ صرف جامعات بلکہ کالجز اور اسکولز میں بھی لائبریری بنائی جائے اور لائبریری اینڈانفارمیشن سائنس کی تعلیم کی بھی بندوبست کی جائے تاکہ بلوچستان  کےطلبہ و طالبات بھی دیگر صوبوں اور ممالک کے طرز پر    تعلیمی ایمرجنسی کے تحت ہر گھرمیں لائبریری اور ہر ہاتھ میں کتاب کا رجحان عام ہوسکے۔ تاکہ بلوچستان علم کی نور سے روشناس ہوسکے۔ 



No comments:

Post a Comment