Thursday, 17 July 2025

سلسلہِ زندگانی قسط 7: تنہائی اور خود کلامی (محمد سلیم کردزادہ)

کبھی کبھی زندگی کے ہجوم میں، بے شمار آوازوں کے بیچ، دل کسی ایسی خاموشی کو ترسنے لگتا ہے جو صرف تنہا میں نصیب ہوتی ہے۔ وہ لمحے جب ہم نہ کسی مجلس میں ہوتے ہیں، نہ کسی محفل میں، بلکہ خود کی سنگت میں — تنہا، مگر مکمل۔

تنہائی، بظاہر ایک سادہ لفظ، لیکن اپنے اندر ایک جہان رکھتی ہے۔ یہ وہ آئینہ ہے جس میں ہم اپنی اصل شکل دیکھتے ہیں۔ لوگ اسے اداسی، محرومی یا کمزوری سے تعبیر کرتے ہیں، لیکن سچ یہ ہے کہ تنہائی وہ مقام ہے جہاں انسان اپنی ذات سے پہلی بار ملتا ہے۔

اور جب یہ ملاقات ہو جاتی ہے، تو ایک نیا در کھلتا ہےخود کلامی کا اور خود اعتمادی کا۔

یہ وہ گفتگو ہے جو لفظوں میں ہوتی ہے لیکن سننے والا صرف ایک ہوتا ہے وہ انسان خود،یہ وہ سوالات ہیں جو ہم کسی اور سے پوچھنے کی ہمت نہیں رکھتے، یہ وہ جوابات ہیں جو ہمیں کوئی اور نہیں دیتا،میں کیسا ہوں؟، میں واقعی خوش ہوں؟، جو کر رہا ہوں، کیا وہی میرا راستہ ہے اور درست سمت میں جارہا ہوں؟  ایسے سوال جو زندگی میں گونجتے رہتے ہیں، مگر ان کا شور صرف تنہائی میں سنائی دیتا ہے۔

کبھی کبھی، خود سے بات کرتے ہوئے آنکھیں بھر آتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے دل خود سے شکوہ کر رہا ہو کہ تم نے مجھے کیوں نظر انداز کیا؟ کیوں ہر کسی کو خوش رکھنے کے چکر میں، خود کو اتنا پیچھے کر دیا؟ مگر پھر، اسی خود کلامی میں امید بھی جنم لیتی ہے۔ جیسے کوئی اندر سے کہہ رہا ہو،ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا۔ تم خود کو پھر سے پا سکتے ہو۔

تنہائی میں وقت ایک الگ رفتار سے چلتا ہے۔ وہاں لمحے ٹھہر جاتے ہیں۔ کبھی یادیں آ کر بیٹھ جاتی ہیں، کبھی پچھتاوے۔ لیکن انہی لمحوں میں کچھ خواب پھر سے جاگ اٹھتے ہیں، کچھ خواہشیں دبے دبے لہجے میں خود کو یاد دلاتی ہیں، اور کچھ فیصلے خاموشی میں ہی پختہ ہو جاتے ہیں۔

خود کلامی صرف تنقید یا تجزیہ نہیں، بلکہ وہ رشتہ ہے جو انسان خود سے جوڑتا ہے، یہ ہمیں اپنے اندر کی شوریدہ آواز سننے کا حوصلہ دیتی ہے، جو شخص خود سے بات کرنے لگے، وہ دنیا کی سب سے خطرناک تنہائی سے بھی نہیں ڈرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اپنے سب سےوفادار دوست کے ساتھ ہے اپنے آپ 

،میری زندگی میں جب کبھی بھی شور حد سے بڑھا، جب چہرے بے چہرہ لگنے لگے، جب رشتے معنی کھونے لگے، تو میں تنہا ہوااور اسی تنہائی میں  ،میں نے خود سے ملاقات کی

خود سے سوال کیے، جواب لیے، کچھ معاف کیا، کچھ قبول کیا اور بہت کچھ سیکھا۔ سب سے بڑی سچائی یہی کہ انسان اگر خود سے جُڑ جائے، تو دنیا سے بچھڑنے کا خوف باقی نہیں رہتا۔

تو سنگتاک۔۔۔۔۔ اگر کبھی زندگی سے تھک جائیں، اور کوئی نہ ملے سننے والا، تو خود سے بات کیجئے۔ ایک قدم تنہائی کی طرف بڑھائیے اور دیکھیے، وہاں آپ کو ایک ایسا شخص ملے گا جسے آپ  شاید برسوں سے نظر انداز کیا ہے

جو آپ خود ہے (کبھی سلیم، کبھی سہیل، کبھی وقاص اور کبھی ظہور اور عبداللہ)۔

خود کو وقت دیں۔ خود کو پہچانیں۔ اپنے لیے اور دوسروں کے لیے آسانیاں بنائیں اور بھانٹیں۔ 

کتاب پڑھے۔ سماج سنواریں



No comments:

Post a Comment