Wednesday, 16 July 2025

سلسلہِ زندگانی قسط 4: امید اور مایوسی (محمد سلیم کردزادہ)

دنیا میں ہر شخص ، جنس ، شہ کسی نا کسی لمحہ، ، کئی نا کئی ، کسی نا کسی چیز ، شہ یا شخص کے ملنے کی آس میں امید لگائے بیٹھا ہے کہ زندگی کی اس دوڑ میں اسے وہ چیز مل جائے گی۔ اگر زندگی کی اس دوڑ میں امید کی لکیروں کو دیکھا جائے تو ہر ایک اپنے ہاتھ کی لکیروں پر پورا اترنا چاہتا ہے ۔لیکن وہ امید کب اس کی زندگی میں اترتی ہے وہ ماسوائے پروردگار کے کسی کے علم میں نہیں ہوتا۔

 زندگی کے اس گہما گہمی میں ہر کوئی امیدوں کے پہاڑ بنائے بیٹھا ہے کہ کاش میں یہ حاصل کرو۔ وہ حاصل کرو ۔ مجھے یہ شہ ملے وہ ملے لیکن بندہ حاجز کو وہی نصیب ہوتی ہے جو اس کے نصیب میں ہوتی ہے ۔ اس کا نصیب میں کیا ہے اور یہ کب ملے گی یہ بھی تو پروردگار پے منحصر ہے کہ وہ بندہ کو کیا اور کب عطافرماتا ہے ۔بیشک میرا پروردگار ہر بندے کے لیے اچھا ہی لکھا ہوتا ہے۔ 

 بندے کو ہمیشہ اچھے کی امید رکھنی چائیے کیونکہ اچھی اور مثبت سوچ ہی بندے کی کئی امیدوں کو پورا کرواکر ہی دم لیتا ہے اور اگر بندہ اپنی سوچ مثبت رکھتا ہے لیکن حد تجاوز امیدیں لگا بیٹھتا ہے نہ۔ پھر بندے کی بہت سے امیدیں بہت سے باتیں ادھورے رہ جاتے ہیں ۔تو انسان حوصلہ پست ہو کر مایوسی کی پہلو میں جابستا ہے اس لیے بندے کو ہمیشہ ہر شہ ، یا شخص سے امید کم لگانی چائیے۔ امید لگانے سے انسان کی Expectations بڑھ جاتی ہے اور جب Expectations بڑھتی ہے تو ان کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے انسان کی دلی خواہش مرجاتی ہے اور بندہ مایوسی کا شکار ہوتاہے۔ 

 مایوسی کفر ہے۔۔۔جب امیدیں ٹوٹ جاتی ہے اور امیدیں بھی ایسی کہ جن کی تعداد بھی محدود سے لامحدود ہو۔ تو پھر انسان مایوسی کی چنگل میں پھنستا چلا جاتا ہے۔ تو پھر اس مایوسی کی کیفیت سے بندے کو نکلنے کے لیے انسان کو بہت وقت درکار ہوتا ہے۔ پھر کچھ بندے دنوں میں نکل جاتے ہیں ، کچھ مہینوں میں ، کچھ سالوں میں تو کچھ اس مرض میں نفسیاتی مریض بن کر عمر گذارتے ہیں۔

 انسان کو مایوسی سے نکلنے کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ خود کو دین کے ساتھ جوڑے رکھے ۔ دین کے ساتھ جوڑنے سے انسان کی تمام تر کمزوریاں ، امیدیں اور امیدوں سے پیدا ہونے والی مایوسی دین کی برکت سے ہی ختم ہوسکتی ہے۔۔۔۔دوسری شرط یہ کہ کوئی کتاب پڑھے ضروری نہیں کے کوئی خاص کتاب ہو بلکہ اس کتاب کا انتخاب کرے جسے آپ کا دل اور دماغ قبول کرتا ہوں ۔ کیوں کہ کتب بینی سے دلی سکوں ملتی ہے ۔ اور خاص کر کلام اللہ سے۔۔۔۔۔۔ تیسرا شرط یہ کہ بندہ سفر میں نکلے اس جگہ کے سحر کے لیے نکلے جسے اس کا دل و دماغ قبول کرتا ہو۔۔۔۔۔۔ اور چوتھی شرط یہ کہ بندہ وہ کام کرے اور دلوں جان سے کرے اور جس بات یا چیز سے مایوسی ہو اس کا بات کے طرف نہ جائے بلکہ اپنا Intention کسی اور جانب مبذول کرے۔ تاکہ اس کا دماغ ہمیشہ فریش رہے اور نئے چیزوں کو قبول کرے۔ اور جو کام باربار کرنے سے بھی درست نہیں ہو پا رہا تو کچھ وقت کے لیے اس کام اس بات کو نہ دہرائے۔ خود کو وقت دیں۔ Relex رہا کرے۔ مطمئن رہے اپنی خود اعتمادی کو برقرار رہنے کے لیے خود کو فریش رکھے۔ انشاءاللہ کچھ وقت ، لمحات کے بعد وہ باتیں وہ کام بہتر طریقے سے تکمیل پائے گی اورآپ کی وہ امیدیں جن کے وجہ سے آپ مایوسی کا شکار ہوئے تھے وہ تمام مایوسیوں سے چٹکارا مل جائے گا۔

#کردزادہ




No comments:

Post a Comment