Wednesday, 16 July 2025

سلسلہِ زندگانی قسط 1: نشیب و فراز (محمد سلیم کردزادہ)

کیا ہے یہ زندگی۔ زندگی تو بس نام سے ہی جانی جاتی ہے کہ بس زندگی ہے۔ کبھی فرمائش۔  تو کبھی زیبائش، تو کبھی آزمائش، تو کبھی امتحان۔ کبھی خوشی کبھی غم یوں زندگی کے دن کٹھتے رہتے ہیں۔ جس طرح بچپن سے لڑکپن پھر لڑکپن سے جوانی نصیب ہوئی۔ اسی طرح اسکول سے کالج پھر کالج سے یونیورسٹی اور پھر یونیورسٹی سے جاب لائف۔ ہر دور نرانہ نظر آیا ہر دور زندگانی نے کچھ ایسے شفیق دوستوں سے ملایا اور بہتوں سے بہت اسباق سیکھنے کو ملا۔ اس زندگی میں بہت سے ایسے دوست، ایسے رشتے ملائے جو  دل کی گہرائیوں میں جا بسے کہ ان کے بغیر زندگی۔ زندگی تو ہے لیکن ان کے بغیر زندگی کا وہ رنگ نہیں جو رنگ دوستوں کے ہونے سے رنگا رنگ بنتی ہے۔ اور بہت سے ایسے بندے جو کہ دل کی ان گہرائیوں میں ہوتے ہوئے دل کو تکلیف دینے سے باز نہیں رہے۔ اور پھر یوں پہلے وہ دل کی گہرائیوں سے پھر صرف نظروں میں رہنے لگے اور بہت سے نظر میں ہوتے ہوئے بھی نظر نہیں آنے لگے جسے اکثر نظر انداز کہا جاتا ہے۔ 

بس زندگی میں یہ کوشش رہتی ہے کہ اپنی ذات سے کسی کو کوئی پیام خطرہ نہ ہو بلکہ پیام عدل و محبت اور پیام عشق ہو۔

جس سے کوئی تفرقہ باتیں پیدا ہو اس سے راہ جدا کرنے میں بندے کو دیر نہیں کرنا چائیے۔ اور وہ شفیق اشخاص جب زندگی میں کبھی خفا ہونے لگے تو ان سے رابط گفت کو جلد از جلد بحال کرنے نا بھولیے۔

خوش رہے خوشیاں بھانٹیں۔

کتاب پڑھے۔ سماج سنوائے۔



No comments:

Post a Comment