Thursday, 17 July 2025

سلسلہِ زندگانی قسط 7: تنہائی اور خود کلامی (محمد سلیم کردزادہ)

کبھی کبھی زندگی کے ہجوم میں، بے شمار آوازوں کے بیچ، دل کسی ایسی خاموشی کو ترسنے لگتا ہے جو صرف تنہا میں نصیب ہوتی ہے۔ وہ لمحے جب ہم نہ کسی مجلس میں ہوتے ہیں، نہ کسی محفل میں، بلکہ خود کی سنگت میں — تنہا، مگر مکمل۔

تنہائی، بظاہر ایک سادہ لفظ، لیکن اپنے اندر ایک جہان رکھتی ہے۔ یہ وہ آئینہ ہے جس میں ہم اپنی اصل شکل دیکھتے ہیں۔ لوگ اسے اداسی، محرومی یا کمزوری سے تعبیر کرتے ہیں، لیکن سچ یہ ہے کہ تنہائی وہ مقام ہے جہاں انسان اپنی ذات سے پہلی بار ملتا ہے۔

اور جب یہ ملاقات ہو جاتی ہے، تو ایک نیا در کھلتا ہےخود کلامی کا اور خود اعتمادی کا۔

یہ وہ گفتگو ہے جو لفظوں میں ہوتی ہے لیکن سننے والا صرف ایک ہوتا ہے وہ انسان خود،یہ وہ سوالات ہیں جو ہم کسی اور سے پوچھنے کی ہمت نہیں رکھتے، یہ وہ جوابات ہیں جو ہمیں کوئی اور نہیں دیتا،میں کیسا ہوں؟، میں واقعی خوش ہوں؟، جو کر رہا ہوں، کیا وہی میرا راستہ ہے اور درست سمت میں جارہا ہوں؟  ایسے سوال جو زندگی میں گونجتے رہتے ہیں، مگر ان کا شور صرف تنہائی میں سنائی دیتا ہے۔

کبھی کبھی، خود سے بات کرتے ہوئے آنکھیں بھر آتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے دل خود سے شکوہ کر رہا ہو کہ تم نے مجھے کیوں نظر انداز کیا؟ کیوں ہر کسی کو خوش رکھنے کے چکر میں، خود کو اتنا پیچھے کر دیا؟ مگر پھر، اسی خود کلامی میں امید بھی جنم لیتی ہے۔ جیسے کوئی اندر سے کہہ رہا ہو،ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا۔ تم خود کو پھر سے پا سکتے ہو۔

تنہائی میں وقت ایک الگ رفتار سے چلتا ہے۔ وہاں لمحے ٹھہر جاتے ہیں۔ کبھی یادیں آ کر بیٹھ جاتی ہیں، کبھی پچھتاوے۔ لیکن انہی لمحوں میں کچھ خواب پھر سے جاگ اٹھتے ہیں، کچھ خواہشیں دبے دبے لہجے میں خود کو یاد دلاتی ہیں، اور کچھ فیصلے خاموشی میں ہی پختہ ہو جاتے ہیں۔

خود کلامی صرف تنقید یا تجزیہ نہیں، بلکہ وہ رشتہ ہے جو انسان خود سے جوڑتا ہے، یہ ہمیں اپنے اندر کی شوریدہ آواز سننے کا حوصلہ دیتی ہے، جو شخص خود سے بات کرنے لگے، وہ دنیا کی سب سے خطرناک تنہائی سے بھی نہیں ڈرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اپنے سب سےوفادار دوست کے ساتھ ہے اپنے آپ 

،میری زندگی میں جب کبھی بھی شور حد سے بڑھا، جب چہرے بے چہرہ لگنے لگے، جب رشتے معنی کھونے لگے، تو میں تنہا ہوااور اسی تنہائی میں  ،میں نے خود سے ملاقات کی

خود سے سوال کیے، جواب لیے، کچھ معاف کیا، کچھ قبول کیا اور بہت کچھ سیکھا۔ سب سے بڑی سچائی یہی کہ انسان اگر خود سے جُڑ جائے، تو دنیا سے بچھڑنے کا خوف باقی نہیں رہتا۔

تو سنگتاک۔۔۔۔۔ اگر کبھی زندگی سے تھک جائیں، اور کوئی نہ ملے سننے والا، تو خود سے بات کیجئے۔ ایک قدم تنہائی کی طرف بڑھائیے اور دیکھیے، وہاں آپ کو ایک ایسا شخص ملے گا جسے آپ  شاید برسوں سے نظر انداز کیا ہے

جو آپ خود ہے (کبھی سلیم، کبھی سہیل، کبھی وقاص اور کبھی ظہور اور عبداللہ)۔

خود کو وقت دیں۔ خود کو پہچانیں۔ اپنے لیے اور دوسروں کے لیے آسانیاں بنائیں اور بھانٹیں۔ 

کتاب پڑھے۔ سماج سنواریں



Wednesday, 16 July 2025

سلسلہِ زندگانی قسط 6: سفر اور شوق کتاب (محمد سلیم کردزادہ)

ایک بات بہت مشہور ہے کہ زندگی خود ایک سفر ہے بات تو سچ ہے لیکن انسان یہ اس دیکھے کو ان دیکھا کر دیتا ہے اور اپنے مشاغل میں مگن رہتے ہیں۔ سفر تو بہت بار ہوئی ہے اندرون و بیرون  بلوچستان، اندرون سندھ و کراچی اور پنجاب میں لاہور لیکن اسلام آباد کا پہلا دورہ ایک دلچسپی کی وجہ سے ہوا اور وہ نیشنل لیول پر ایک ٹریننگ ورکشاپ میں حاضری یقینی بنانے کی غرض سے تو یوں سفر کا آغاز ہوا کوئٹہ سدابہار کے شائین سوار ڈائیو میں۔ اور سفر ہوتا گیا لیکن اس بار سفر میں ایک نیا ٹیوسٹ یہ تھا کہ میں اپنے ساتھ کچھ کتب ہمراہ لیے تاکہ ڈائیو میں کتب بینی سے روح پرور کیا جاسکے۔ تو دیر کئے بغیر آپ کو اپنے ہمسفر کتب کا مختصر تعارف کرتا چلو وہ ہے۔

#رشتوں_اور_جذبات_کی_نفسیات جس کی لکاری ہے #ابصار_فاطمہ، #مہردر کی اشاعت اور اسٹاکسٹ #یونیورسٹی_بک_پوائنٹ ہے

کتاب ہمارے زندگی اور ہماری نفسیات کے حوالے سے لکھی گئی ہے جس میں ہمارے معاشرے میں تمام رشتوں (میں کہہ سکتا ہوں تمام کیونکہ میں نے تمام پایا) پر خاصی تفصیل تزکرہ ہوا ہے جس سے ہم اپنے اور اپنے ساتھ وابسطہ اپنے رشتے جیسے کہ؛ والدین، بہن بھائی، میاں بیوی، سسرال، استاد اور شاگرد، دوستوں سے تعلق، غیر متعلق لوگوں سے جذباتی تعلق اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ متفرق مضامیں شامل ہے۔ جذباتی قربانی، خودانحصاری، شادیوں پر جھگڑے، والدین کے متعلق دعوے، ڈرامائی رویاں اور ڈیتھ شیمنگ جیسے مضامیں شامل ہے۔ 

مذکورہ کتاب کی مطالعہ اور اپنے ماردی ملت بلوچستان کے بہترین پرفضا ماحول اور راستہ بمنزل اسلام آباد جاری تھی تو کوئٹہ سے 15 کلو میٹر دور کچلاک سے یہ سفر میں ہمسفر کے ساتھ گفتگو کا بہترین انداز شروع ہو اور یوں میں سفر میں ہمسفر کے ساتھ پیاری گفتگو میں مدہوش ہوتا گیا اور مجھے پتہ بھی نہیں چلا کہ زیارت کراس آیا وہ بھی پتہ تب چلا جب محترم ڈرائیور بلکہ ڈرائیور نہیں میرا اور میرا ہمسفر کو منزل پر پہنچانے والا وصیلہ جس کی وجہ سے مجھے کتب بینی کی ایک نئی جوش ولولہ اور ہمسفر کتاب مطالعہ کرنے کو ملا۔ خیر پھر سفر کا آغاز اور میرا ہمسفر کے ساتھ مد ہو گفتگو پھر سے شروع ہوئی اور یوں سفر جاری رہا۔ 

سفر میں چٹیل میدان، چھوٹے ٹیلے، باغات، بازار ، صحرا، بلند بالا پہاڑی سلسلہ اور اپنی مثال آپ بلوچستان کی سرزمین، کچلاک، خانوزئی، مسلم باغ، قلعہ سیف اللہ، ژوب اور دانہ سر کے مقام پر خیبر پختون خواہ میں داخل ہوئے، ڈیرہ اسماعیل خان سے ہوتے ہوئے ڈیرہ اسماعیل خان اسلام آباد  موٹروے کے ذریعے یوں سفر جاری رہی اور ہم اپنے ہمسفر کے ساتھ جتے جی مصروف رہے اور اسلام آباد پہنچے۔ 

کتب بینی واقعی ایک بہترین مشغلا ہے اور بندہ اگر اس عظیم مشغلے کے ساتھ وابستگی رہے تو وہ کبھی بھی خود کو اکیلا محسوس نہیں کرتا بلکہ وہ تو کتب بینی میں ایسا مگن رہتا ہے کہ پتہ بھی نا چلے کہ ساتھ بیٹھا شخص کیا کر رہا ہے کیا کہہ رہا ہے۔ اور بندہ کتاب میں ہورہی مطالعہ کو اپنے ساتھ گفتگو اور اپنے ساتھ بیٹھا محسوس کرتا ہے اور جو کہانی چل رہی ہوتی ہے تو اسے اپنی کہانی سمجھ رہا ہوتا ہے۔

اگر ہم کسی شخص سے مدہو گفتگو ہوتے ہیں تو ان کے الفاظ کا چناو، بات کرنے کا ڈھنگ، گفتگو کی تاثیر یہ سب ہم دیکھ رہے اور پرک رہے ہوتے ہیں بلکل ایسے ہی ہم اگر کسی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم اس کتاب میں لکھے ہر ایک حرف، لفظ و لہجہ، خیالات و واقعات کو اپنے ہمراہ ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ 

میں اپنے دوستوں اور طالب علموں کو اس کتاب کو پڑھنے کا مشورہ دونگا کیونکہ اس کتاب میں جو مضامیں شامل کی گئی ہے وہ دراصل انسانی  نفسیات کے عین مطابق ہے کہ ہم اپنی زندگی کیسے جیتے ہیں اور کسی دوسرے کے زندگی کو اسے کیسے جینے دیتے ہیں۔ 

خوش رہے آباد رہے  اور خوشیاں بھانٹیں۔ #کتاب_پڑھے #سماج_سنواریں اور دوسروں کو نصیحت کرتے رہا کریں کہ کون سی کتاب کیسی ہے اور ہمیں کیا پڑھنا چائیے۔




سلسلہِ زندگانی قسط 5: خواہش اور تمنا (محمد سلیم کردزادہ)

ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ بندہ اپنی خواہشات کو جتنا کم رکھے، اتنا ہی خوش رہتا ہے۔ بچپن سے  ہم جس چیز کو دیکھتے آرہے ہیں۔ اس کی خواہش کر بیٹھتے رہے اب چاہے وہ چیز میسر ہو یا نہ ہو۔ اس لیے اسلام میں بھی بہت سے جہگوں پے اپنے خواہشات کو قابو میں رکھنے کی تائید کی گئی ہے کیونکہ خواہشات کی پیروی کرتے کرتے زندگی کافی مشکل ہوتی جاتی ہے اور خواہشات جتنے محدود ہونگے زندگی بھی اتنی آسان اور خوشگوار رہے گی۔ 

لیکن اگر ہم یہ سوچتے ہیں کہ کچھ زیادہ سوچنے یا زیادہ خواہش کی ظاہر ہونے پے شرم یا پھر کسی کے سامنے بولنے سے تکراتے ہے تو پھر جن خواہشات کی تکمیل اللہ پاک نے ہمارے ذہنوں میں رکھی ہے۔ وہ کبھی پورے نہیں ہوتے اب محدود خواہشات ہو یا لامحدود بس ہمارے ذہن زنگ آلود ہوجاتی ہے اب وہ چاہے شرمانے کی وجہ ہو۔ خوداعتمادی کی کمی ہو۔ کسی سے اپنے دل کی بات کہلوانے کا ڈر ہو۔

اب یہ ڈر، یہ شرمانہ، یہ تکرانہ، یہ کوئی خواب تو نہیں جس کی آپ نے خواہش ظاہر کی ہو وہ بھی بس دل ہی دل میں اب اس کے لیے آپ نے کچھ محنت تو کرنی ہوگی کچھ تو مشقت آٹھانی پڑیگی۔ اپنے اندر کی خوداعتمادی، self confidence،  کو ابھرنا ہوگا۔ اور یہ ہوگا تب جب آپ میں ہمت آئیگی، جب آپ کچھ کر دیکھنا دیکھانا چائینگے۔

 یہ ہوگا کیسے کہ آپ کتب بینی کی جانب مبذول ہوجائے زیادہ سے زیادہ کتابیں 📚 پڑھنے اور ان کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ لائبریری کے لیے وقت نکالنے کتابوں کے لیے وقت وقف کریں کہ اتنے دنوں میں یہ کتاب پڑھنی ہے۔ پھر کتاب پڑھنے کے بعد اس کی ریویو اپنے ڈائری میں لکھیں دوستوں کے ساتھ شئیر کرے۔ اور خود کو وقت دیں کہ مجھے اس سال میں اتنے کتب پڑھنی ہے۔

یہاں مجھے ایک بہترین مثال یاد آیا کہ میرے ایک استاد کی کلاس میں فرمایا تھا کہ "تیر انداز ہمیشہ اپنے حدف کو نشانہ نہیں بناتا بلکہ اس سے اوپر نشانہ تاکتا ہے اگر تیر کمان سے نکلے تو درمیان میں زمین کی گریوٹی کی وجہ سے تیر حدف تک پہنچتے پہنچتے نیچے کی جانب آتا ہے اور ٹھیک حدف پے لگتا ہے"۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں ہماری زندگی میں اپنے نیک خواہشات سے زیادہ دیکھنا اور سوچنا چائیے اور زیادہ محنت کرنی چائیے تو ہم رب کی عطا کردہ بے شمار نعمتوں سے بہت جلد اپنے حصے کی نعمتیں حاصل کر لینگے"۔

دل میں خواہشات وہ رکھے جن کو پورا کرنے کا یا تکمیل ہونے کی جستجو، دلی لگن، دلچسپی اور خوداعتمادی آپ میں ہو۔ تب یہ دنیاوی اور آوخروی تمام خواہشات تکمیل ہوتے نظر آئینگے۔ اور بیشک یہ زندگی کی وہ پہلوی باتیں۔ وہ خواہشات ہے جن کو رب کریم سے براہ راست طلب کرنے میں بندہ سر بسجود ہوکر ہی پاتا ہے اس لیے اپنے رب کے حضور پیش ہو اور سر بسجود ہوکر اپنے تمام نیک تمناؤں اور خواہشات کی ڈیلینگ کریں۔ انشاءاللہ مستقبل میں آپ کو وقتا فوقتا اپنے خواہشات تکمیل ہوتی نظر آئی گی۔

 



سلسلہِ زندگانی قسط 4: امید اور مایوسی (محمد سلیم کردزادہ)

دنیا میں ہر شخص ، جنس ، شہ کسی نا کسی لمحہ، ، کئی نا کئی ، کسی نا کسی چیز ، شہ یا شخص کے ملنے کی آس میں امید لگائے بیٹھا ہے کہ زندگی کی اس دوڑ میں اسے وہ چیز مل جائے گی۔ اگر زندگی کی اس دوڑ میں امید کی لکیروں کو دیکھا جائے تو ہر ایک اپنے ہاتھ کی لکیروں پر پورا اترنا چاہتا ہے ۔لیکن وہ امید کب اس کی زندگی میں اترتی ہے وہ ماسوائے پروردگار کے کسی کے علم میں نہیں ہوتا۔

 زندگی کے اس گہما گہمی میں ہر کوئی امیدوں کے پہاڑ بنائے بیٹھا ہے کہ کاش میں یہ حاصل کرو۔ وہ حاصل کرو ۔ مجھے یہ شہ ملے وہ ملے لیکن بندہ حاجز کو وہی نصیب ہوتی ہے جو اس کے نصیب میں ہوتی ہے ۔ اس کا نصیب میں کیا ہے اور یہ کب ملے گی یہ بھی تو پروردگار پے منحصر ہے کہ وہ بندہ کو کیا اور کب عطافرماتا ہے ۔بیشک میرا پروردگار ہر بندے کے لیے اچھا ہی لکھا ہوتا ہے۔ 

 بندے کو ہمیشہ اچھے کی امید رکھنی چائیے کیونکہ اچھی اور مثبت سوچ ہی بندے کی کئی امیدوں کو پورا کرواکر ہی دم لیتا ہے اور اگر بندہ اپنی سوچ مثبت رکھتا ہے لیکن حد تجاوز امیدیں لگا بیٹھتا ہے نہ۔ پھر بندے کی بہت سے امیدیں بہت سے باتیں ادھورے رہ جاتے ہیں ۔تو انسان حوصلہ پست ہو کر مایوسی کی پہلو میں جابستا ہے اس لیے بندے کو ہمیشہ ہر شہ ، یا شخص سے امید کم لگانی چائیے۔ امید لگانے سے انسان کی Expectations بڑھ جاتی ہے اور جب Expectations بڑھتی ہے تو ان کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے انسان کی دلی خواہش مرجاتی ہے اور بندہ مایوسی کا شکار ہوتاہے۔ 

 مایوسی کفر ہے۔۔۔جب امیدیں ٹوٹ جاتی ہے اور امیدیں بھی ایسی کہ جن کی تعداد بھی محدود سے لامحدود ہو۔ تو پھر انسان مایوسی کی چنگل میں پھنستا چلا جاتا ہے۔ تو پھر اس مایوسی کی کیفیت سے بندے کو نکلنے کے لیے انسان کو بہت وقت درکار ہوتا ہے۔ پھر کچھ بندے دنوں میں نکل جاتے ہیں ، کچھ مہینوں میں ، کچھ سالوں میں تو کچھ اس مرض میں نفسیاتی مریض بن کر عمر گذارتے ہیں۔

 انسان کو مایوسی سے نکلنے کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ خود کو دین کے ساتھ جوڑے رکھے ۔ دین کے ساتھ جوڑنے سے انسان کی تمام تر کمزوریاں ، امیدیں اور امیدوں سے پیدا ہونے والی مایوسی دین کی برکت سے ہی ختم ہوسکتی ہے۔۔۔۔دوسری شرط یہ کہ کوئی کتاب پڑھے ضروری نہیں کے کوئی خاص کتاب ہو بلکہ اس کتاب کا انتخاب کرے جسے آپ کا دل اور دماغ قبول کرتا ہوں ۔ کیوں کہ کتب بینی سے دلی سکوں ملتی ہے ۔ اور خاص کر کلام اللہ سے۔۔۔۔۔۔ تیسرا شرط یہ کہ بندہ سفر میں نکلے اس جگہ کے سحر کے لیے نکلے جسے اس کا دل و دماغ قبول کرتا ہو۔۔۔۔۔۔ اور چوتھی شرط یہ کہ بندہ وہ کام کرے اور دلوں جان سے کرے اور جس بات یا چیز سے مایوسی ہو اس کا بات کے طرف نہ جائے بلکہ اپنا Intention کسی اور جانب مبذول کرے۔ تاکہ اس کا دماغ ہمیشہ فریش رہے اور نئے چیزوں کو قبول کرے۔ اور جو کام باربار کرنے سے بھی درست نہیں ہو پا رہا تو کچھ وقت کے لیے اس کام اس بات کو نہ دہرائے۔ خود کو وقت دیں۔ Relex رہا کرے۔ مطمئن رہے اپنی خود اعتمادی کو برقرار رہنے کے لیے خود کو فریش رکھے۔ انشاءاللہ کچھ وقت ، لمحات کے بعد وہ باتیں وہ کام بہتر طریقے سے تکمیل پائے گی اورآپ کی وہ امیدیں جن کے وجہ سے آپ مایوسی کا شکار ہوئے تھے وہ تمام مایوسیوں سے چٹکارا مل جائے گا۔

#کردزادہ




سلسلہِ زندگانی قسط 3: نیا سال، کتب بینی اور لائبریری (محمد سلیم کردزادہ)

کیا ہے یہ زندگی۔۔۔ زندگی تو بس جی رہے ہیں لیکن یہ زندگانی کے یہ گزرے سال اور ہر سال بعد نیا سال کو جی رہے ہیں۔ لیکن در حقیقت زندگی میں ماضی کے یہ سال کیسے گزرے، اور آنے والا یہ نیا سال زندگی میں کیسے گزرے گا۔ کیا یہ نیا سال 2024 خوش آئند ہوگا، کیا یہ خوشحال ثابت ہوگی، کیا اس نئے سال میں ہمارے رشتہ داری، ہماری دوستی، یاری، اور دوسرے رشتے اسی طرح برقرار رئینگے۔ اور کیا ہم ایسے رشتوں کو برقرار رکھ پائینگے؟ کیا ہم اس نئے سال کو جی پائینگے؟ کیا پتہ ہم اس سال کے کتنے دن، کتنی راتیں، کتنے ہفتے زندہ رہینگے؟

زندگی کے یہ دن، ہفتے، مہینے اور سال کیسے گزرے اور اب یہ سال نو کیسا گذرےگا یہ ہم میں ہر فرد پر انحصار کرتا ہے کہ ہم اپنے عزیز و اقارب، دوست احباب سے رشتے کیسے نبائینگے اور کیسا برتاو رکھتے ہیں۔ اس زندگی میں یہ ہم میں ہر فرد پر فرض بنتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ اچھے حسن سلوک رکھے۔ ایک دوسرے کے احساسات کا احترام کرے۔ ایک دوسرے کے باتوں پر صبرو تعامل کا مظاہرہ کرے۔ 

کیا اس سال نو کے موقع پر ہم نے یہ عہد کی ہے کہ اس سال میں ہم اتنے کتب 📙 مطالعہ کرینگے؟

کیا ہم نے یہ عہد کی ہے کہ ہم اتنے کتب کے تحفہ 🎁 دینگے؟

ہم اپنے معاشرے میں کتب بینی و لائبریری کے لیے کتنی کوششیں کرینگے؟

آئے ہم یہ عہد کرے کہ خود کتب نویسی، کتب بینی فروغ دینگے اور اپنے گھر، دوست احباب اور اپنے معاشرے میں کتب کی نشوونما کے لیے کام کرینگے۔ 

آئے ہم کتب بینی کو فروغ دیں۔

تعلیم کے فروغ کے لیے کوششیں کریں۔

لائبریریوں کے تعمیر و فعالیت پر کام کریں۔

آئے ہم اس سال نو کو مبارک بنائے اپنے لیے دوسروں کے لیے تعلیم و لائبریری کو فروغ دیں۔ علم کی شمع کو روشن رکھنے میں ایک دوسرے ہے معاون ثانت ہوں۔

آسانیاں بھانٹیں۔ خوشیاں بھانٹیں 

کتاب پڑھے۔ سماج سنواریں

 



سلسلہِ زندگانی قسط 2: خاموشی و صبر (محمد سلیم کردزادہ)

کیا ہے یہ زندگی۔۔۔ زندگی تو بس جی رہے ہیں لیکن یہ زندگی کو جیا کیسے جائے شاہد ہی ہم میں سے کوئی اس چیز کو سوچ، پرک اور سمجھ سکتی ہے۔ زندگی کو سہی معنوں میں جینے کے لیے بندہ اشرف المخلوقات کو دو چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ دو چیزیں ایک دوسرے سے جھڑی ہوئی ہوتی ہے جن میں ایک خاموشی اور دوسری صبر ہے۔

1۔ خاموشی؛ ہر اس جگہ، اس نفر، اس جرگہ، اس محفل، اس دیوان میں جہاں آپ کے بارے میں کچھ سننے کو ملے۔ کچھ ایسی جو کسی کے لیے نیک شگون نا ہو۔ وہ باتیں جو اس بندے کے حق میں نا ہو تو اس بندہ کو چائیے کہ وہ وہاں خاموشی اختیار کرے۔ 

2۔ صبر؛ ہر اس شخص کو چاہیے جس کے بارے میں کچھ غلط بیانی ہورہی ہو اور اس بندے کے حق میں نہ ہو تو اس دلاور انسان کو چائیے کے وہ صبر رکھے اور تو اسلام میں بھی صبر کرنے والے کے لیے اجر و ثواب ہے۔ کیونکہ وقت صبر کرنے والے کے ساتھ ہوتا ہے اور وقت بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ 

لہذا زندگی کو خوبصورت اور پررونق بنانے کے لیے خاموشی اور صبر کا دامن پکڑے رکھے تو پھر آپ کہ بھی زندگی آسان اور سامنے والے کی زندگی بھی آسان ہوگی۔ 

آسانیاں بھانٹیں۔ خوشیاں بھانٹیں 

کتاب پڑھے۔ سماج سنواریں



سلسلہِ زندگانی قسط 1: نشیب و فراز (محمد سلیم کردزادہ)

کیا ہے یہ زندگی۔ زندگی تو بس نام سے ہی جانی جاتی ہے کہ بس زندگی ہے۔ کبھی فرمائش۔  تو کبھی زیبائش، تو کبھی آزمائش، تو کبھی امتحان۔ کبھی خوشی کبھی غم یوں زندگی کے دن کٹھتے رہتے ہیں۔ جس طرح بچپن سے لڑکپن پھر لڑکپن سے جوانی نصیب ہوئی۔ اسی طرح اسکول سے کالج پھر کالج سے یونیورسٹی اور پھر یونیورسٹی سے جاب لائف۔ ہر دور نرانہ نظر آیا ہر دور زندگانی نے کچھ ایسے شفیق دوستوں سے ملایا اور بہتوں سے بہت اسباق سیکھنے کو ملا۔ اس زندگی میں بہت سے ایسے دوست، ایسے رشتے ملائے جو  دل کی گہرائیوں میں جا بسے کہ ان کے بغیر زندگی۔ زندگی تو ہے لیکن ان کے بغیر زندگی کا وہ رنگ نہیں جو رنگ دوستوں کے ہونے سے رنگا رنگ بنتی ہے۔ اور بہت سے ایسے بندے جو کہ دل کی ان گہرائیوں میں ہوتے ہوئے دل کو تکلیف دینے سے باز نہیں رہے۔ اور پھر یوں پہلے وہ دل کی گہرائیوں سے پھر صرف نظروں میں رہنے لگے اور بہت سے نظر میں ہوتے ہوئے بھی نظر نہیں آنے لگے جسے اکثر نظر انداز کہا جاتا ہے۔ 

بس زندگی میں یہ کوشش رہتی ہے کہ اپنی ذات سے کسی کو کوئی پیام خطرہ نہ ہو بلکہ پیام عدل و محبت اور پیام عشق ہو۔

جس سے کوئی تفرقہ باتیں پیدا ہو اس سے راہ جدا کرنے میں بندے کو دیر نہیں کرنا چائیے۔ اور وہ شفیق اشخاص جب زندگی میں کبھی خفا ہونے لگے تو ان سے رابط گفت کو جلد از جلد بحال کرنے نا بھولیے۔

خوش رہے خوشیاں بھانٹیں۔

کتاب پڑھے۔ سماج سنوائے۔



اگر یہ کتب نہ ہوتے۔۔۔ تو نہ جانے کہا اور کیسے ہوتے۔۔۔ ہم (محمد سلیم کردزادہ)

ہمیشہ انسان دوسروں پے الزام تراشی، زبان درازی، سوشل اور شوشہ کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے کہ فلاں ابن فلاں نے میرے لیے کیا کیا ہے۔ لیکن دوسری طرف کسی کا ذہین مبذول نہیں کرتے اور کوئی تو کرنا بھی نہیں چاہتا کہ ہمیں کسی دوسرے سے کیا۔ ہر طرف میں، میں اور میرا، میرا کی رٹ لگائی ہوئی ہیں۔ اگر ہم یہ "میں" کو "ہم" اور "میرا" کو "ہمارا" سمجھنے لگے تو ہمارا معاشرہ بھی سدھر سکتا ہے۔ 

ہمارا معاشرہ آج اس درجہ زندگی پہ آپہنچا ہے کہ ہمیں اپنے معاشرے میں علم و ادب اور تعلیم دوست شخصیات بہت کم ملتے ہیں علم و ذہانت پہ بات کرنے والے ہزاروں ملینگے لیکن عمل کرنے والے ہزاروں میں چند ایک آدھ ملتے ہیں۔

آج سب کے منہ سے صرف ایک بات نکلتی ہے کہ "ڈیجیٹل" دور ہے کتاب کا دور نہیں کتب بینی کا ایک دور تمام ہوا۔ لیکن اگر اس بات کی دوسری پہلو پہ نظر ڈالی جائے تو ہمیں ہر چیز "مینیول" میں ملےگا۔  اگر ایک منٹ سوچ لے تو انسان کی علم و ذہانت اور شعور و آگائی کی ساری باتیں "کتاب اور کتب بینی" پہ تمام ہوتی نظر آتی ہیں۔ 

اگر ہمارے پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نا ہوتے تو یہ دنیا نہیں ہوتی۔۔۔۔۔ اگر نبی اکرم صہ کے امتی نہ ہوتے تو ہم کیسے ہوتے۔۔۔۔۔۔ اگر قرآن  نہیں ہوتا تو ہمارا معاشرہ کیسے ہوتا۔۔۔۔۔۔۔ اگر ہمارے معاشرے میں اسلامی تعلیمات، معلمین، محدثین، تحقیق کنندگان، علم دوست، تعلیم دوست، فلاسفرز، علمی دانشور شخصیات نہ ہوتے تو کیسا ہوتا۔۔۔۔۔۔ اگر ہمارے علمی آباو اجداد کی لوح کی قلم سے لکھی علمی، ادبی، اخلاقی، معاشرتی، تحقیقی اور تاریخی کتب نہ لکھی ہوتی تو ہمارا معاشرہ کیسا ہوتا۔۔۔۔ اگر یہ کتب سے پیار، کتب سے علم کی پرواز کی لت ہم میں نہ ہوتی تو ہم کیسے ہوتے۔۔۔۔۔۔۔ اگر یہ علم کے چشم ہو چراغ یہ قلم و کتاب نا ہوتے تو ہمارا معاشرہ کیسے ہوتا۔ اگر ہمارے زندگی میں یہ کتاب (قرآن) 📙 نہ ہوتا اگر ہمارے معاشرے میں کتب بینی نہ ہوتی تو ہم وہاں ہوتے جہاں زندگی کو زندگی سمجھنے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی، تو معاشرہ کو معاشرہ نہیں جنگل سمجھنے کی عذاب میں ہوتے۔۔۔۔۔۔۔ اگر یہ کتب نہ ہوتے تو آج دنیا اتنی ترقی کی سیڑھیوں پہ ترقی کے منازل طے نہ کرتے ہوتے۔۔۔۔۔۔ اگر یہ کتب نہ ہوتے تو آج یہ "ڈیجیٹل" جیسے الفاظ ہمیں بولنے، سننے اور سیکھنے کی نصیب نہیں ہوتی۔

آئیں مل کر اپنے گھر، معاشرے، شہر و قصبہ اور اپنے علاقے میں تعلیم و آگائی، قلم و کتاب اور کتب بینی کے لیے اپنا حصہ ڈالے اپنے عظیم اساتذہ کرام سے سیکھے گئے وہ درد بھرے الفاظ و وہ علم کی پروان کو ہم اپنے عزیز و اقارب، اپنے شاگردوں، اپنے دوستوں، اور اپنے معاشرے کو سنوارنے میں لگائیں۔

آئیں آج سے یہ عہد کرے اپنے حصے کی ذمہ داری نبھائے۔ اپنے معاشرے کو سنوارے۔ کتاب کو عام کرے۔ کتب بینی کو فروغ دیں۔ آئیں آج سے میں کو ہم اور میرا کو ہمارا بنائے۔ اپنے لوگوں سے پیار کرے اپنے معاشرے کو جہالت کی ناپاکی نجات دلائیں۔ آئیں مل کر ایک ساتھ اپنے اور اپنوں کی زندگیوں میں کتب بینی کو فروغ دیں۔ تعلیم و آگائی کو عام کریں۔ آئیں کتاب دوستی کو عام کریں آئیں لائبریری کے کلچر کو فروغ دیں۔ 

کتاب_پڑھے  سماج_سنواریں

کتاب_زندگی_کا_حاصل_کل_ہے 

آئیں مل کر کتب بینی اور لائبریری کو فروغ دیں۔